قادیانیوں کے انگریزی ترجمے..
قادیانیوں کے انگریزی ترجمے
مولانا عبدالله عباس ندوي. ترجمه: قمرشعبان الندوي
مشملات:
قادیانیوں کے ترجموں پر ایک عام نظر
محمد علی لاہوری کا ترجمہ
مالک غلام فرید کا ترجمہ
سرظفراللہ خاں کا ترجمہ
قادیانیوں کے ترجموں پر ایک عام نظر
انگریزی مترجمین قرآن کی ایک اور جماعت ہے جس کے افراد ’’قادیانی‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ’’قادیان‘‘ نامی شہر کی طرف نسبت کی بنیاد پر جو صوبہ پنجاب (انڈیا) میں واقع ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں میں سے ایک شخص نے انگریز حکام کی حمایت سے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور انہیں کا تعاون سے ایک مٹھی بھر جماعت کا حلقہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ بش نے جماعت دین کے بنیادی اصولوں سے ناواقفیت کی بناء پر اور فرنگیوں کے چند ٹکوں کے لالچ میں اس مدعی نبوت کی پرجوش تائید کی تھی۔ چنانچہ مسلم علماء نے اس مدعی بنو اور اس کے پیروکاروں کا تعاقب کیا، ان سے نبرد آزما ہوئے۔ ان کے دعوئوں اور سرگرمیوں کی بیخ کنی کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں یہ مٹھی بھر جماعت ہندوستان کے ایک کونہ میں سکڑ کر رہ گئی۔ تقسیم کے بعد جب پاکستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی، اس جماعت نے اس نوخیز ملک کے اندر اپنے عقائد کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ حتیٰ کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کا قلمدان سید ظفراللہ خاں کے ہاتھ آیا جو اس خارج از دین جماعت کا ایک ممبر تھا۔ اس نے اپنے فاسد عقائد، اشاعت اور عوام کو گمراہ کرنے میں اپنے منصب کا استحصال کیا اور اس نظریہ کو عام کرنے کی کوشش کی کہ غلام احمد قادیانی ایک مسلمان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کو یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ کسی نئی شریعت اور رسالت کا مالک نہیں ہے۔ یہ ایک نبی ہے جس کو ایک زمانہ کے لئے مبعوث کیا گیا۔ چنانچہ اس کے ان باطل اور جھوٹے دعوئوں سے کچھ سادہ قسم کے لوگ متاثر بھی ہو گئے۔ چونکہ خفیہ طور پر ان لوگوں کو مالی امداد بھی حاسل ہو رہی تھی اور مختلف ممالک میں اس نے اپنے دفاتر بھی کھول لئے تھے۔ لوگوں نے اس فرقہ کو محض اسلام دیگر مسلکوں کی طرح ایک مسلک سمجھا۔ لیکن دیکھتے دیکھتے اس دھوکہ کا پردہ ہٹ گیا اور مسلمانوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ ایک ناگریزوں کا خود ساختہ پودہ ہے جس کے بال و پر ہندوستان میں نکلے اور یہیں تناور درخت بن کر لہلہانے کا موقع ملا۔
بالآخر پاکستانی حکومت نے اعلان کیا کہ قادیانیت خارج از اسلام ہے اور اس کے پیروکاروں کی حیثیت پاکستان میں غیر اسلامی اقلیت کی ہے۔ اس قرارداد کے منظرعام پر آ جانے کے فوراً بعد مدعی نبوت کا موجودہ جانشین راہ فرار اختیرا کرنے پر مجبور ہوا اور برطانیہ نے اس کو اپنی گود میں بٹھایا جیسا کہ سلمان رشدی اور دوسرے دشمنانِ اسلام کو اس کی گود میں جگہ ملی ہوئی تھی۔
خلاصہ یہ کہ قادیانیت جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے اور حال یہ ہے کہ اسلام سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے، اس فرقہ نے بھی تفسیر و ترجمہ کے نام پر قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی اور کچھ قادیانیوں نے ترجمہ قرآن کے پس پردہ لوگوں کو اس مغالطہ میں ڈالا کہ وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے معانی کو وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور قرآن سے ان کی محبت بھی دوسروں کے بالمقابل وافر ہے۔
اب آئیے ان کے ترجموں پر غور کریں کہ انہوں نے ترجمہ کے اندر کیا کیا گل کھلائے ہیں اور کس کس انداز سے اپنے نظریات کی تاویل کی ہے۔
ان کی مزعومات اور تفسیری نظریات میں درج ذیل باتیں مشترک ہیں:
۱. پہلی بات جو ان کے ترجموں اور تفاسیر سے واضح ہوئی ہے وہ یہ کہ نبوت کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا۔
۲. ہندوستانی مدعی نبوت غلام احمد قادیانی مسیح موعود اور بنی مبعوث ہے (العیاذ باللہ) اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی آئی ہے۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہے۔ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے منبع تھے۔
۳. حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ نہیں اٹھائے گئے بلکہ ان کی فطری موت ہوئی۔
۴. قرآن کریم میں معجزات کا جو ذکر آیا ہے وہ محض قرآنی مجاز اور اشاراتی تعبیر ہے۔
ان کے ترجموں کا جائزہ لیتے وقت ہم انشاء اللہ ان کے باطل نظریات کی بعض مثالیں پیش کروں گا تاکہ ان سے باخبر رہ سکیں۔
قادیانیوں کے متلق تھوڑی تفصیل لکھنے کے بعد درج ذیل تین ترجموں کا جائزہ پیش کروں گا:
۱. محمد علی لاہوری کا ترجمہ
۲. مالک غلام فرید کا ترجمہ
۳. سید ظفراللہ خاں کا ترجمہ
یہ قابل ذکر ہے کہ فرقہ قادیانیت کی دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ کا عقیدہ ہے کہ یہ ہندوستان مدعی نبوت، نبیوں سے ایک نبی، امام، رہبر اور تحریک احمد کا بانی ہے۔ دوسری شاخ کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک مجدد اور واجب الاطاعت دین لیڈر و رہنما تھا۔ دونوں شاخوں کا پیروکاروں نے ترجمہ قرآن کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے ک مولانا محمد علی لاہوری کا تعلق اس شاخ سے تھا جو مدعی نبوت کو مجدد اور ہادی مانتا تھا۔ ’’واللّٰہ یعلم، انہم لکاذبون‘‘ (توبہ:۲) (اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ سب یقینی طور پر جھوٹے ہیں)
اس فرقہ کے ماننے والوں نے جو ترجمے کئے ہیں ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی محمد علی لاہوری، غلام فرید اور ظفر اللہ خاں کے ترجموں پر تفصیلی بات کی جائے گی۔ چونکہ ان کے ترجموں کو دنیا میں شہرت حاصل ہے لہٰذا اس لئے اہمیت کے ساتھ ان پر گفتگو ضروری ہے۔
۱. خواجہ کمال الدین کا ترجمہ بنا: A Running commentary of the Holy Quran. (قرآن کریم کا ایک معاصر ترجمہ)۔ یہ ترجمہ ۸۴۹۱ء مطابق ۸۶۳۱ھج کو مکمل لندن سے شائع ہوا۔
۵۱۹۱ء مطابق ۴۲۳۱ھج سے قسطوار اس کا ترجمہ شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ قرآن کریم کا اصل نص عربی خط میں ہوتا، اور اس کے سامنے لاطینی رسم الخط میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئیں، پھر آیت کے نمبر کے ساتھ ہر آیت کا ترجمہ ہوتا۔ حاشیہ پر عام تفسیر ہوتی۔ مترجم نے اپنے مخصوص نظریات کے مطابق بعید از قیاس قرآن کی تاویل پیش کی اور قصداً Running Commentary (موجودہ زمانہ کی تفسیر) نام رکھا اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن سائنسی اکتشافات اور یوروپ کی موجودہ ایجادات پر سیر حاصل بحث کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے کہا: دخان سے مراد ریلوے انجن کا دھواں ہے۔ سورہ انشقاق کی ایسی بیجا تفسیر کی کہ گویا قرآن کریم ریل، ریلوے اسٹیشن اور ریلوے ملازمین کی بات کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر مترجم کی زندگی اور لمبی ہوتی اور سیٹلائٹ اور ہوائی جہاز کا زمانہ دیکھا ہوتا تو کہتا کہ قرآن تو ان ایجادات کے بارے میں بات کرتا ہے۔ بہر کیف آیات قرآنیہ ے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ مستشرقین کی توجہات بھی حاصل نہ کرسکا چہ جائیکہ مسلمانوں کی توجہات حاصل ہوئیں۔ اس ترجمہ کا پہلا ایڈیشن لائبریریوں کی یادگار تاریخ کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گیا۔
۲. غلام احمد سرور کا ترجمہ۔ مترجم سنگاپوری عدالت میں جج تھا۔ عربی کی معمولی شد بد تھی۔ انگریزی میں شعر کہتا تھا۔ چنانچہ کوشش کی کہ قرآن کریم کا انگریزی منظوم ترجمہ کرے۔ لیکن اس کے ترجمہ کو کوئی توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔ البتہ اس کے حواشی اور تعلیقات کی طرف مستشرقین کی نظر گئی اور بعض مسلم مترجمین نے بھی ان سے استدلال کیا۔
۳. مدعی نبوت کے بیٹے مرزا بشیر احمد کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ ’’قرآن مجید‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس پر تفصیلی گفتگو آگے آ رہی ہے۔
اس کا پہلا جزء ۹۴۹۱ء مطابق ۹۶۳۱ھج کو قادیان سے شائع ہوا تھا۔ دوسرا جزء ۵۵۹۱ء مطابق ۵۷۳۱ھج کو پاکستان کے ربوہ نامی شہر سے شائع ہوا۔
محمد علی لاہوری کا ترجمہ
’’قرآن مجید‘‘ کے نام سے اس کے چھ ایڈیشن اوکنگ انگلینڈ سے شائع ہوئے او رساتواں ایڈیشن لندن سےطبع ہوا۔ اس کی پہلی اشاعت ۶۱۹۱ء مطابق ۵۳۳۱ھج کو ہوئی تھی۔ اس وقت تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں کسی مسلم یا اسلام کی طرف منسوب قرآن پر ایمان رکھنے والے کسی علام کے قلم سے کوئی صاف انگریزی ترجمہ نہیں آیا تھا۔ چنانچہ مسلم تعلیم یافتہ حلقہ میں اس کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور مترجم کو مشرق عربی اور مشرق اسلامی دونوں کے تعلیم یافتہ خاص کر مغربی تہذیب و تمدن کے پرورہ طبقوں میں اچھی شہرت حاصل ہو گئی۔ سید یکتھال اور عبداللہ یوسف علی کے ترجموں کے منظر عام پر آنے سے پہلے پہلے تک یہی ترجمہ مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کے قرآنی نظریات کا ترجمان اور نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ ررڈ بیل نے قرآن کریم کا ترجمہ کرتے وقت جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست میں اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ زبان آسان اور سلیس ہے۔ انداز بیان بھی پسندیدہ ہے۔ لیکن یہ مسلمانوں کے عقائد کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ اگرچہ مترجم کا دعویٰ ہے اور اس پر اس کا اصرار بھی ہے کہ اس میں مسلمانوں اور جمہور مفسرین کے اعتقادی نظریات سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ بجز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے سلسلہ میں اس کا عقیدہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فطری موت ہو گئی۔ ان کو زندہ آسمان میں نہیں اٹھایا گیا (واضح رہے کہ یہ عقیدہ غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے قادیانیوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے)۔
مترجم کی بے بنیاد تفسیری آراء سے اس دعویٰ کی تردید ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ’’ملائکۃ‘‘ (فرشتوں) کے بارے میں اس کی رائے ہے کہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کی قوت ارادی اور خیر و فلاح کی قوت تمثیلی کا نام ہے (حاشیہ نمبر: ۷۴) اور ’’جن‘‘ قوت شر اور شر کی طرف بلانے والوں کی مجازی تمثیل کا نام ہے۔
لاہوری نے قرآن کریم کی تصریحات سے تجاہل برتتے ہوئے محض ان الفاظ کے معانی میں تاویلیں کر کے اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۲۸ اور ۰۸۵۲)
اس طرح جنت کے بارے میں اس کی رائے ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی ایک معنوی شکل ہے، اور دوزخ اس کی ناراضگی کی دلیل ہے۔ اس نے تمام طرح کے معجزات کا انکار کیا ہے اور معجزات کی آیات کی بیجا تاویلیں کی ہیں۔ اس آیت کا ترجمہ کیا ہے:
’’واذا استسقی موسی لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر، فانفجرت منہ اثنتاعشرۃ عینا قد علم کل أناسٍ مشربہم‘‘۔ (بقرہ: ۰۶) ترجمہ ملاحظہ ہو:
(جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو میں نے حکم دیا کہ اپنی عصا کے ساتھ وہ پہاڑ کی طرف چلے اور پانی کے چشمے تلاش کرے (تو اس نے ایسا کیا)۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں پانی کے بہت سے چشموں کے سامنے تھے (پہاڑوں کے اوپر) اور ہر ایک آدمی نے اپنا اپنا چشمہ پہچان لیا۔)
اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے وہ استدلال کرتا ہے کہ ضرب کے معنی چلنے کے ہیں۔ ضرب الارض کے معنی ہوئے زمین پر چلا اور حجر کے معنی پہاڑ، اور انفجار کے معنی ہیں کسی چیز کا اچانک ظاہر ہونا۔ مترجم نے ہر جگہ معجزات کی اس انداز سے بیجا بعید از قیاس تاویلیں کی ہیں۔ اگرچہ اس کے آراء کی تائید نہ کسی قدیم مفسرین سے ہوئی اور نہ ہی عربی لغات میں ایسی کوئی دلیل ملتی ہے۔ اپنے دعوئوں کو مدلل کرنے کے لئے اپنی تعلیقات کے اندر نحوی تراکیب اور قرآنی مجازات سے بحث کرتا ہے اور جب کوئی صورت نہیں بن پاتی ہے تو وہی اپنا پرانا راگ الاپتا ہے۔ یہ تو قرآنی مجازات کے قبیل سے ہے۔ مترجم نے ایک طویل مقدمہ لکھا ہے جس میں اسلام اور سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات اور خصوصیات کو بیان کیا ہے اور ترتیب قرآن کی کیفیت اور عربی معاشرہ میں وحی کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی ہے جو قرآن کا اولین مخاطب تھا۔
بعض مسلم مصنّفین نے مترجم کی تاویلات اور تحریفات کا عذر یہ تلاش کیا ہے کہ اس کی پرورش و پرداخت ایسے ماحول او ایسے وقت ہوئی ہے جب کہ ہندوستان اور پورے مشرقی ممالک میں برطانوی سامراجیت کا دبدبہ اور بول بالا تھا اور مستشرقین قرآن کریم کو بگاڑ کر اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ اسلام کی شبیہ بھی خراب ہو رہی تھی۔ چنانچہ مترجم محمد علی لاہوری نے بھی دین اسلام کو دشمنوں کے سامنے اس طرح پیش کی اجو اس دور کے عقلیات و نفسیات کے ہم آہنگ تھا۔
لیکن یہ عذر ناقابل قبول ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کو ہرگز اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش نہیں کی ہے جیسا کہ نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
وحی آئی ہے، بلکہ مخصوص نظریات کو ترجمہ قرآن کے پس پردہ پیش کیا ہے(۱)۔
(۱) مترجم کی شریعت اسلامیہ پر ایک ضخیم کتاب ہے جو قادیانی مبلغین کے لئے ایک علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یوروپ و افریقہ میں، جو مغربی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں، جن کے اندر دینی علم راسخ نہیں ہے، ان کو بہلا پھسلا کر گمراہ کرنے میں اچھا رول ادا کر رہی ہے۔ خاص مشرقی مغرب کے ممالک میں چونکہ ان نوجوانوں کی تعلیم بچپن سے ایسے ماحول میں ہوئی جو غیر اسلامی ہے۔
Comments
Post a Comment